0
شکنجہ از طارق اسماعیل ساگر


سمجھوتہ ایکسپریس حسب روایت لیٹ تھی۔ تین گھنٹے سے وہ ٹرین کے منتظر تھے لیکن ابھی مزید تین گھنٹے انہیں انتظار کرنا تھا۔
"میں نے کہا تھا اماں یہ گاڑی کبھی وقت پر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ کی ضد۔"
اقبال نے اپنی والدہ کی طرف دیکھ کر کہا جو پلیٹ فارم کے ایک کونے میں لکڑی کے بنچ پر صبر و رضا کا پیکر بنی ہاتھ میں پکڑی تسبیح گھمارہی تھیں۔
"ارے بیٹا۔۔۔۔ پندرہ سال بعد تمہاری خالہ اماں آرہی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ پندرہ سال بعد ۔۔۔۔۔۔۔ کئی تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ بےچاری نجانے کیسے جوان بیٹی کے ساتھ یہاں تک پہنچے گی۔ بیٹا کہاں دہلی اور کہاں لاہور ۔۔۔۔ہاۓ کاش آج تمہارے والد زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے یہ جان کر کہ ان کی سالی انڈیا سے آ رہی ہیں۔۔۔"
اماں بی نے اپنی دانست میں اقبال کو جواب دے کر مطمئن کر دیا تھا۔
"ارے اماں بی ۔۔۔۔۔ میں کب کہہ رہا ہوں ہم خوش نہیں ۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اتنی جلدی یہاں آنے کی ضرورت کیا تھی۔ اب یہاں اس قیامت کی گرمی میں تین گھنٹے تک بیٹھی رہو۔۔۔۔۔ اور اس بات کا بھی کیا ثبوت ہے کہ گاری تین گھنٹے ہی لیٹ ہو ۔ یہ تین گھنٹے تیرہ گھنٹوں میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں"۔


اقبال نے چڑ کر کہا۔
گرمی واقعی بلا کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا قہر ٹوٹ رہا تھا۔ الامان الحفیظ۔
شام ڈھل چکی تھی لیکن پلیٹ فارم جہنم کا کوئی حصہ بنا ہوا تھا۔ لکڑی کے بنچوں کے گرد کسے لوہے کے فریم کو اگر ہاتھ چھو جاتا تو یوں محسوس ہوتا جسیے کسی نے جلتی آگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
کہنے کو تو یہاں تین پنکھے چھت سے لٹک رہے تھے۔
لیکن ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان میں سے صرف ایک میں زندگی کی حرارت دوڑ رہی تھی۔ باقی دونوں جانے کتنے مہینوں سے اسی طرح منہ بسوورے ٹین کی چھت کے ساتھ لٹک رہےتھے۔
ماضی میں کبھی ان میں حرکت نام کی کوئی شے رہی ہو گی اب تو ان تک سوئچ بورڈ سے پہنچنے والی بجلی کی تار بھی کئی جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔
جو واحد پنکھا چل رہا تھا۔ وہ اگر نہ چلتا تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ اس کے چلنے سے جو بھیانک آواز پیدا ہو رہی تھی اس نے اقبال کو متعدد مرتبہ جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا تھا۔ پنکھے کے پر چلنے سے ایسی آوازیں نکلتی تھیں جیسے کوئی مار مار کر انہیں چلنے پر مجبور کر رہا ہر ہو اور اس کے پروں سے چھو کر جب نار جہنم میں جھلستی ٹین کی چھت سے حاصل ہونے والی ہوا کا کوئی جھونکا سمینٹ کے تپتے فرش پر کپڑے بچھا کر انتظار میں بیٹھے مسافروں کے جسم سے چھوتا تو انہیں اپنے بدن جلنے کا احساس ہوتا تھا ۔ اقبال اور ان کا ماموں جو اماں بی کے ساتھ یہاں آۓ تھے اب تک آٹھ دس چکر پلیٹ فارم کے باہر لگا چکے تھے ۔ اس درمیان انہوں نے پلیٹ فارم کے سامنے فروخت ہونے والے گٹیا کور مضر صحت شربتوں کے دس دس گلاس چڑھا لۓ تھے۔
لیکن ۔۔۔
کیا مجال جو ان کی پیاس میں کمی آئی ہو۔




 

This entry was posted in . Bookmark the permalink.

Leave a reply

clicksor

Blogroll

Free counters!